اقوال زریں) حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام)

1: فتنہ و فساد میں اس طرح رہو جس طرح اونٹ کا وہ بچہ جس نے ابھی اپنی عمر کے دو سال ختم کئے ہوں کہ نہ تو اس کی پیٹھ پر سواری کی جاسکتی ہے اور نہ اس کے تھنوں سے دودھ دوہا جاسکتا ہے۔ 
2

کچھ لوگوں نے آپ علیہ السّلام کے روبرو آپ علیہ السّلام کی مدح و ستائش کی، تو فرمایا۔اے اللہ! تومجھے مجھ سے بھی زیادہ جانتا 
ہے، اور ان لوگوں سے زیادہ اپنے نفس کومیں پہچانتا ہوں۔اے خدا جو ان لوگوں کاخیال ہے ہمیں اس سے بہتر قرار دے اور ان (لغزشوں )کو بخش دے جن کا انہیں علم نہیں
3
جب کوئی حدیث سنو تو اسے عقل کے معیار پر پرکھ لو,صرف نقل الفاظ پر بس نہ کرو، کیونکہ علم کے نقل کرنے والے تو بہت ہیں اور اس میں غور کرنے والے کم ہیں۔
4
ایک خارجی کے متعلق آپ علیہ السّلام نے سنا کہ وہ نماز شب پڑھتا ہے اور قرآن کی تلاوت کرتا ہے توآپ نے فرمایا یقین کی حالت میں سونا شک کی حالت میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔
5
انبیاء سے زیادہ خصوصیت ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو ان کی لائی ہوئی چیزوں کازیادہ علم رکھتے ہوں (پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی)ابراہیم سے زیادہ خصوصیت ان لوگوں کی تھی جو ان کے فرمانبردار تھے۔اور اب اس نبی اور ایمان لانے والوں کو خصوصیت ہے۔(پھرفرمایا)حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دوست وہ ہے جو اللہ کی اطاعت کرے اگرچہ ان سے کوئی قرابت نہ رکھتا ہو، اور ان کا دشمن وہ ہے جو اللہ کی نافرمانی کرے، اگرچہ نزدیکی قرابت رکھتا ہو۔
6
جو عمل تقوی ٰ کے ساتھ انجام دیا جائے وہ تھوڑا نہیں سمجھا جاسکتا، اور مقبول ہونے والا عمل تھوڑ اکیونکر ہوسکتا ہے ؟
7
آپ سے دریافت کیا گیا کہ نیکی کیاچیز ہے توآپ نے فرمایا کہ نیکی یہ نہیں کہ تمہارے مال و اولاد میں فراوانی ہوجائے۔بلکہ خوبی یہ ہے کہ تمہارا علم زیادہ اور حلم بڑا ہو، اور تم اپنے پروردگار کی عباد ت پر ناز کرسکو اب اگر اچھا کام کرو۔تو اللہ کا شکر بجالاؤ، اور اگر کسی برائی کا ارتکاب کرو۔تو توبہ و استغفار کرو، اور دنیا میں صرف دو شخصوں کے لیے بھلائی ہے۔ایک و ہ جو گناہ کرے تو توبہ سے سے اس کی تلافی کرے اور دوسرا وہ جو نیک کام میں تیز گام ہو۔
8
وہ علم بہت بے قدروقیمت ہے جو زبان تک رہ جائے، اور وہ علم بہت بلند مرتبہ ہے جو اعضا و جوارح سے نمودار ہو.
9
یہ دل بھی اسی طرح اکتا جاتے ہیں جس طرح بدن اکتا جاتے ہیں۔لہٰذا (جب ایسا ہوتو)ان کے لیے لطیف حکیمانہ نکات تلاش کرو۔
10

پورا عالم و دانا وہ ہے جو لوگوں کو رحمت خدا سے مایو س او ر اس کی طرف سے حاصل ہونے والی آسائش و راحت سے نا امید نہ کرے ,اور نہ انہیں اللہ کے 
عذاب سے بالکل مطمئن کر دے۔